21-Sep-2022-تحریری مقابلہ وعدہ خلافی
وعدہ خلافی
وعدہ خلافی ہم روز اللّٰہ سے کتنے ہی وعدے کرتے ہیں کیا ہم انہیں پورا کرتے ہیں یہ پھر توڑ دیتے ہیں نہیں ہر وعدہ ہم پورا نہیں کر پاتے بہت سے وعدے تو ہم کر لیتے ہیں اللّٰہ سے لیکن انہیں پورا کرنے کہ ہمت نہیں ہوتی ہے ہمیں جب ہم اللّٰہ سے وعدہ خلافی کرتے ہیں تو وہ ہم سے ناراض نہیں ہوتا ہمیں برا بھلا بھی نہیں کہتا ہمارا رزق بھی نہیں چھنتا لیکن یہی کوئی انسان ہم سے وعدہ خلافی کر دے تو ہم اسے برا بھلا کہنے لگتے ہیں گالی دینے لگتے ہیں ان سے تعلق توڑنے لگتے ہیں ایسا ہی ہوتا ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہم سے کوئی چیٹ نہ کرے اگر وعدہ کیا ہے تو پورا کریں ورنہ نہ کرے وعدہ کس نے کہا ہے وعدہ کرنے کو جب وعدہ نبھانا ہی نہیں ہے تو نہ کرے ہم سے وعدہ کرکے ہمیں کسی امید سے تو نہ باندھے۔یہ ہماری سوچ ہے لیکن جب اللّٰہ کی باری آتی ہے تو ہم ہی خود ڈھیر سارے وعدے کر لیتے ہیں کہ یہ کر دے پکا میں یہ کام چھوڑ دونگا یا یہ کردے پکا نماز اسٹارٹ کر لونگا وغیرہ اور سب سے اہم وردہ جو ہم کرتے ہیں کہ کبھی کسی نہ محرم کی محبت میں نہیں پڑینگے کبھی کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کرینگے کبھی نہ محرم کی محبت میں اپنے والدین کو رسوا نہیں کرینگے اور آخر میں کیا ہوتا ہے وعدے ٹوٹ جاتے ہیں ہم نامحرم کی محبت میں گرفتار بھی ہو جاتے ہیں اللّٰہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک بھی کر لیتے ہیں اور والدین کو بھی رسوا کر دیتے ہیں اور سارے وعدے ٹوٹ گئے۔
ایک چھوٹی سی کہانی وعدہ خلافی پر آپ کی خدمت میں۔۔۔
جب پورا گھر سو رہا تھا تو وہ اپنے روم میں جاےنماز پر بیٹھی اللّٰہ سے محو گفتگو تھی اللّٰہ سے فریاد کر رہی تھی"یہ اللّٰہ کل میرا یونی کا فرسٹ ڈے تونے ہمیشہ مجھے مصیبتوں سے بچایا ہے ہمیشہ میرا ساتھ کبھی مجھے اکیلا نہیں کیا ہے یہ اللّٰہ مجھے نا محرم کی محبت سے بچانا یا اللّٰہ میں نے ہمیشہ آپ سے بچپن سے آج تک ہزاروں وعدے کیے ہیں اور انہیں نبھانے کی ہزاروں کوششیں۔یا اللّٰہ میں آج بھی تجھ سے وعدہ کرتی ہوں کہ ہمیشہ کی طرح آج اور آگے بھی کبھی تیرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں کرونگی کبھی اپنے والدین کو رسوا نہ ہونے دونگی۔یا اللّٰہ اپنے حبیب کے صدقے میری دعاؤں کو قبولیت کا شرف عطا کر مجھے ہمت دینا کہ میں اپنے وعدے پورے کروں۔۔۔ آمین۔۔۔"دعا مانگ کر اٹھتی وہ جاےنماز کو جگہ پر رکھتی سونے کو لیٹ گئی اس بات سے انجان کہ وہ وعدہ خلافی کرنے والی ہے اس کے سارے وعدے ٹوٹنے والے ہیں۔
انابیہ بیٹا اٹھ جائیں آپ یونی سے لیٹ ہو جائیگی"
مسسز حامر اسے جگاتے ہوئے بولی ۔
مما بس دو منٹ"وہ کمفٹر منھ پر ڈالتے بولی۔
آٹھ بج گئے ہیں پھر نہ کہنا کہ میں نے جگایا نہیں "مسسز حامر آخر حربہ آزماتے جانے لگی کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔
کیا مما ابھی تو ساڑے سات بجے ہیں"وہ ٹائم دیکھتی منہ بنا کر بولی تو مسسز حامر مسکرا اٹھی۔
اب جائیں فریش ہو تب تک میں ناشتہ لگاتی ہوں "مسسز حامر اسکی پیشانی پر بوسہ دیتی پیار سے بولی تو وہ منہ بنا کر واشروم میں گھس گئی۔
~~~~~~~`~~~~~~~
اوے حیدر چل ریکینگ کرتے ہیں آج فرسٹ سمسٹر کا پہلا دن ہے" پانچ لوگوں کا یہ گروپ کینٹین میں بیٹھا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکا بولا جس کی بات پر سامنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ کھل گئی۔
ہاں بے چل اور سنا ہے ان میں ایک لڑکی بڑی پردہ نشین ہے"دوسرا لڑکا بھی بولا۔
یہ صرف لڑکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے پردہ کرتی ہیں ورنہ یہ اتنی پردہ نشین ہوتی نہیں ہیں جتنا بنتی ہیں"ہانیہ حقارت سے بولی۔
ہانی ڈارلنگ بی ریلیکس تم کیوں اتنی ہائپر ہو رہی چلو دیکھتے ہیں کون ہے وہ لڑکی"حیدر ہانیہ کو ریلیکس کرتا بولا اور اسے کمر سے پکڑتا باہر کی طرف بڑھ گیا جہاں سے وہ آ رہی تھی بلیک سلک کے عبایہ میں چہرے پر پردہ کیے صرف اسکی ہیزل آنکھیں ہی دکھ رہی تھی اور اس میں بھی وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کافی تھی ۔
اوے یہی ہے وہ پردہ نشین "حیدر کا دوست بولا۔
پردے میں بھی قیامت لگ رہی حیدر"حیدر کا دوسرا دوست اس کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیتے بولا۔
رک میں آتا ہوں"حیدر میکانکی انداز میں کہتا ہانیہ کو خود سے دور کرتے اس کی طرف بڑھ گیا۔
ایکسکیوز کیا آپ فرسٹ سمسٹر کی کلاس بتا سکتی کہاں پر ہے"انابیہ حیدر کو مخاطب کرتے بولا جو اسکی ہی طرف آ رہا تھا اس کے مخاطب کرنے پر رک گیا
جی شیور آپ آ جائیں میں بتا دیتا ہوں"حیدر اپنے شیطانی دماغ میں پلین ترتیب دیتا مسکرا کر بولا اور آگے بڑھ گیا تو انابیہ بھی اسکے پیچھے چل دی۔
مس یہ رہی آپکی کلاس"حید اسے ایک خالی کلاس میں لاتا ہوا بولا۔
لیکن یہاں تو۔۔۔۔ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ حیدر نے باہر سے دروازہ بند کر دیا اور وہ ہونک بنی دروازے کو دیکھنے لگی اور سمجھ آنے پر دروازے کی طرف بھاگی۔
دروازہ کھولو۔۔۔ کوئی ہے پلیز دروازہ کھولو"وہ دروازے کو زور زور سے بجاتے ہوئے چلا کر بولی۔
کوئی ہے پلیز یار دروازہ کھولو مما۔۔۔"انابیہ دروازے پر ہاتھ مارتی روتے ہوئے بولی اور باہر حیدر اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑ قہقہ لگا رہا تھا۔
واہ بھائی مان گئے تمہیں "اسمائیل ہنستے ہوئے بولا۔
وہ خود چل کر میرا پاس آ گئی تھی تو سوچا ٹھورا پرینک ہو جائے"حیدر آنکھ مارتا ہنستے ہوئے بولا تو باکی سب بھی ہنسنے لگے۔
یار یہ اندرسے آواز کیوں نہیں آ رہی "دانی جو خاموشج سے کھڑی ان لوگوں کو ہنستا دیکھ رہی تھی اندر کی خاموشی کو محسوس کرتی بولی۔
کہی بےہوش تو نہیں ہو گںٔی"ذیشان تشویش سے بولا تو حیدر جلدی سے دروازہ کھولتا اندر بڑا جہاں اسکے دروازہ کھولنے پر انابیہ بےہوش ملی تو حیدر جلدی سے آگے بڑھتا اسے گود میں اٹھا کر باہر کی طرف بھاگا۔پیچھے اسکے دوست بھی اسکے پیچھے بھاگے۔
حیدر کہاں جا رہے ہو اسے لے کر"ہانیہ اسکے پیچھے بھاگتے ہوئے بولی اسے بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ حیدر نے اس لڑکی کو اٹھایا ہوا تھا جسے وہ جانتا بھی نہیں۔
میڈیکل روم میں"وہ ہونز تیز تیز چلتے ہوئے بولا۔
ڈاکٹر انکل دیکھیں ان مس کو کیا ہو گیا ہے"وہ میڈیکل روم میں داخل ہوتا جلدی سے بولا۔
ارے بیٹا یہ کون ہے اور کیا ہوا ہے بچی کو"ڈاکٹر صاحب جو کرسی پر بیٹھے کوئی فاںٔل ریڈ کر رہے تھے جلدی سے اٹھتے ہوئے بولے۔
پتا نہیں انکل میں کلاس میں جا رہا تھا کہ مجھے یہ کوریڈور میں بےہوش ملی تو جلدی سے اپکے پاس کے آیا آپ چیک کر لیں کیا ہوا انہیں "حیدر نظریں چراتے ہوئے بولا اسے ناجانے کیوں عجیب لگا۔
بیٹا یہ ڈر کر بےہوش ہوئی ہیں انہیں شاید ڈر کا فوبیہ ہے"ڈاکٹر چیک اپ کے بعد بولے۔
اچھا انکل انہین ہوش کب آئے گا"وہ پریشانی سے بولا۔
بیٹا کچھ دیر میں آ جائے گا آپ جاؤ کلاس لو"وہ اسے پرسکون کرتے ہوئے بولے۔تع وہ بغیر کچھ بولے باہر نکل گیا جہاں اسکے دوست اسکا انتظار کر رہے تھے۔
کیا ہوا یار تو اتنا ٹینشن کیوں لے رہا"سوفی اسے پریشان دیکھ کر بولا۔
پتا نہیں یار"حیدر ماتھا مسلتے ہوئے بولا۔
ریلیکس جان چلو کلاس لیتے ہیں"ہانیہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
ہہمم"حیدر ہنکار بھرتا اسے لیے کلاس کی طرف بڑھ گیا۔اسکا کلاس میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا ناجانے کیوں بار بار اسکا دھیان اس لڑکی کی طرف جا رہا تھا۔
ااہ مما"انابیہ ہوش میں آتے ہوئے بولی ۔تو ڈاکٹر جلدی سے اسکی طرف آےبیٹا اب آپ کیسا فیل کر رہی"وہ شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں۔
میں یہاں کیسے اور آپ "ہانیہ اٹھتے ہوئے بولی۔
بیٹا میں ڈاکٹر آپ بے ہوش ہو گئج تھی تو حیدر آپ کو یہاں کے آیا"وہ پیار سے بولے۔
کون حیدر انکل"وہ ناسمجھی سے بولی ۔
اسے آپ چھوڑو آپ گھر جاؤ آرام کرو"ڈوکٹر مختار بولے۔
لیکن انکل میرا آج پہلا دن ہے اور"انابیہ پریشانی سے بولی۔
بیٹا آپ گھر جاؤ آپ کو آرام کی ضرورت ہے اور یہ کچھ میڈیسین ہے لے لینا آپ بہتر فیل کروگی"ڈاکٹر مختار اسکی طرف میڈیسین بڑھاتے ہوئے بولے تو وہ شکریہ بولتی ان کے آفس سے نکل گئی۔
میں اندر آ جاؤ انکل"اسکے گئے ابھی دس ہی منٹ ہوا تھا کہ کیبن کا دروازہ نوک ہوا۔
ہاں بیٹا آؤ کیا ہوا"ڈاکٹر حیدر کو دیکھتے مسکرا کر بولے۔
وہ انکل وہ لڑکی کہاں گئی۔۔۔میرا مطلب اسے ہوش آ گیا کیا"حیدر اٹکتے ہوئے بولا۔
ہاں بیٹا اور وہ تو اپنے گھر بھی چلی گئی"وہ مصروف انداز میں بولے جبکہ ان کی بات پر وہ مایوس ہو گیا تھا۔
جی انکل میں چلتا ہوں"وہ دھیرے سے بولتا ان کے کیبن سے نکل گیا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا بے مقصد گاڑی دوڑاتے ہوئے وہ شام میں گھر پہنچا۔
آج اس کا چوتھا دن تھا اور اس دن کے بعد سے اسکا سامنا دربارہ اس لڑکے سے نہیں ہوا تھا لیکن وہ دن وہ نہیں بھول پا رہی تھی۔
دوسری طرف وہ روز یونی میں اسے ڈھونڈتا لیکن ابھی تک اسے بھی وہ نہیں ملی تھی
ہانیہ یہ حیدر کو کیا ہوا ہے آج کل عجیب نہیں ہو گیا ہے وہ"سوفی ہانی کو دیکھتے سوچتے ہوئے بولا ۔
مجھے کیا پتا"وہ کندھے اچکا گئی ۔
مجھے لگتا ہے وہ اس لڑکی سے محبت کرنے لگا ہے جسے اسنے بند کیا تھا"ایان بھی کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
بکواس بند کرو تم دونوں میں نے اس لڑکی کو جان سے مار دینا اگر حیدر اس سے محبت کی تو"ہانی غصے سے بولتی تن فن کرتی وہاں سے چلی گئی ۔
اسے کیا ہوا"حیدر حیرت سے بولا جو ابھی وہاں آیا تھا۔
کچھ نہیں۔۔تم بتاؤ کہاں رہتے ہو آج کل کلاس بھی نہیں کے رہے"سوفی جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تع وہ گڑبڑا گیا۔
کہی تو نہیں یہی رہتا ہوں"وہ گڑبڑاتے ہوئے بولا۔
ہمیں تو نہیں لگتا"ایان بھی بولا۔
کیا بکواس ہے یار تم دونوں کو اور کوی کام نہیں ہے کیا "حیدر جھنجھلاتے ہوئے بولتا وہاں سے اٹھ گیا پیچھے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔
ابھی ہو کینٹن سے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ اسے وہ دیکھ گںٔی جسے ہو پیچھلے ایک ہفتے سے ڈھونڈ رہا تھا وہ جلدی سے اسکی طرف بڑا جو گھاس پر بیٹھی کسی چیز کا مطالعہ کی ر رہی تھی اسے دیکھتی وہ جلدی سے اپنی چیزیں سمیٹ کر جانے لگی کی حیدر نے اچانک اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور انابیہ نے بغیر کچھ سوچے سمجھے اسے تھپڑ جڑ دیا۔
تم نے مجھے ہاتھ بھی کیسے لگایا میں ہاتھ توڑ دونگی تمہارا اگر آئندہ مجھے چھونے کی غلطی بی کی تو"انابیہ مضبوط لہجے میں کہتی وہاں سے دوڑتے ہوئے بھاگی پیچھے وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے ساکت تھا آج تک اس پر کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا ہاتھ تو دور کسی نے اونچے لہجے میں بات نہیں کی تھی اور آج اس لڑکی نے اس پر ہاتھ اٹھا دیا تھا وہ غصے سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا اور گاڑی کو فل سپیڈ پر ڈالتا اپنا غصہ کم کرنے لگا ۔
میں چھوڑونگا نہیں اسے اسکی ہمت بھی کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی اب میں اسے بتاؤنگا بڑی پارسہ بنتی ہے نہ"وہ غصے سے سوچتا گھر کی طرف گاڑی ڈال گیا۔
یہ یہ میں نے کیا کر دیا یا اللّٰہ مجھے معاف کر دینا۔۔۔لیکن اسنے مجھے کیسے چھوا اللّٰہ۔۔ اللّٰہ جی"وہ اپنے بستر پر اوندھے منہ لیٹی روتے ہوئے اللّٰہ کص پکار رہی تھی معافی مانگ رہی تھی۔
انابیہ بیٹا نیچے آ کر کھانا کھا لو"مسسز حامر دروازے پر دستک دیتے ہوئے بولی۔
نہیں مما بھوک نہیں ہے بس مجھے سونا ہے پلیز مجھے ڈسٹرب نہ کریں"وہ اپنے رونے پر بمشکل بند باندھتے ہوئے بولی ۔
بیٹا آپ تھیک ہو نہ۔۔کیا آپ تو رہی"مسسز حامر پریشانی سے بولی ۔
مما میں تھیک ہوں بس تھوڑا زخام ہو گیا ہے اس لیے آپ کو لگ رہا"انابیہ ویسے ہی بولی۔
اچھا بیٹا آپ دوای لے لو"وہ بولتی چلی گئی اور پیچھے اس کے رونے میں اور شدت آ گئی۔
مس سنیں ایم سوری کل کے لیے بھی اور اس دن کے لیے بھی"ابھی وہ اپنی کلاس میں جا ہی رہی تھی حیدر جلدی سے اسکے آگے آتے ہوئے ندامت سے بولا لیکن وہ اسے اگنور کرتی جانے لگی کہ وہ پھر سے سامنے آ گیا۔
سوری یار میں نے اس دن بس پرینک کیا تھا مجھے نہیں پتا تھی کہ تمہیں فوبیہ ہے آی سیور اگر مجھے پتا ہوتی تو کبھی نہ کرتا "وہ دوبارا اسکے سامنے آتا کان پکڑتے ہوئے بولا اور انابیہ کو وہ اس وقت بہت کیوٹ لگا تھا بلکل چھوٹے بچے کی طرح۔
مان جاؤ نہ پلیز"اسکے خاموش رہنے پر وہ پھر بولا
کوئی بات نہیں مینے معاف کیا"وہ اب کی بار ہلکی مسکراہٹ سے بولی تو وہ بھی مسکرا دیا۔
کیا ہم فرینڈ بن سکتے ہیں"حیدر امید سے اسکی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا تو وہ سوچ میں پڑھ گئی۔
سوری لیکن میں لڑکوں سے دوستی نہیں کرتی"وہ پریشانی سے بولی۔
اچھا۔۔"وہ لہجے میں مایوسی سنورے ہوئے بولا اور جانے کگا کہ وہ بول اٹھی۔
لیکن پھر بھی فرینڈز"انابیہ اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی تو وہ مسکراتا ہوا اسکا ہاتھ تھام گیا اور آنکھوں میں الگ ہی چمک در آی۔
اب انابیہ کا زیادہ تر ٹائم اسی کے ساتھ بیتنے لگ اتنا وہ ہر جگہ اسکے ساتھ پای جاتی اور یہ سب ہانی کو ہزم نہیں ہوتا۔
حیدر تم آج کل مجھے ٹائم نہیں دے رہے سہی سے جب دیکھو اس لڑکی کے ساتھ رہتے ہو"ہانی شکوا کرتے بولی۔
ہانی ڈارلنگ سارا ٹائم تو تمہارا ہی ہے نہ"وہ اسے کمر سے پکڑتا اپنے قریب کرتے ہوئے بولا۔
تو تمنے اس لڑکی سے دوستی کیوں کی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ تم اسے سے محبت کرنے لگے ہو"ہانی اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔
محبت ہاہاہاہا کیا مزاق ہے حیدر علی کو محبت وہ بھی اس سے نیور جانننن چلو شوپنگ پر چلتے ہیں"حیدر اسکے بال کان کے پیچھے کرتے اوپر جھکتے ہوئے بولا۔تو وہ اس پر نثار ہو گئی۔کہ حیدر کا فون بجا۔
ہیلو حیدر کہاں ہو میں ویٹ کر رہی"فون کی دوسری طرف سے انابیہ کی آواز آی۔
اوو سوری یار میں بھول گیا تھا بس پانچ منٹ میں آتا ہوں"حیدر ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا کہ وہ کیسے بھول گیا۔
کیا ہوا کہاں جا رہے ہو"اسے جاتے دیکھ جلدی سے ہانی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
ڈارلنگ وہ آج میرا سارہ دن انابیہ کا ہے میں اس سے وعدہ کر چکا ہوں ہم سنڈے کو چلینگے پکا"حیدر اسکے بال پر کس کرتے محبت سے بولا تو وہ اسکا ہاتھ چھوڑ گئی۔
سوری انابیہ میں لیٹ ہو گیا "وہ پارکنگ ایریا میں آتے ہوئے بولا جہاں انابیہ بغیر عبایہ کے صرف سر پر دوپٹہ لیے کھڑی تھی اور آپ ے وعدے کو بھول کر۔
کوئی بات نہیں جلدی سے چلو اب"انابیہ لاڈ سے بولی۔
جو حکم"وہ ہنستے ہوئے بولا اور اسکے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اسکے بیٹھنے پر دوسرج طرف آ کر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
ابھی وہ لوگ راستے ہی میں تھے کہ حیدر نے گاڑی روک دی۔
کیا ہوا گاڑی کیوں روکی"انابیہ حیرت سے بولی۔
وہ مجھے تمہیں کچھ دینا تھا"حیدر جیب سے ڈیبی نکالتے ہوئے بولا۔
کیا"وہ آبرو اچکاتے ہوئے بولی۔
آی کو یو انابیہ مجھے۔۔۔مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے جب کیسے پتا نہیں لیکن بس ہو گئج تم مجھے پہلے دن ہی بھا گئی تھی اور جب تم بےہوش ہوئی تھی میرا دل بند ہونے لگا تھا ایسا لگا تھا کہ میں نے اپنی زندگی کھو دی پھر اسکے بعد میں نے تمھیں بہت ڈھونڈا تمہاری یاد مجھے پریشان کرنے لگی پھر تم مجھے واپس مل گئی اور تم نے مجھے معاف بھی کر دیا تھینک یو انابیہ آی ریلی لو یو کیا تم مجھ سے شادی کروگی"حیدر ڈیبی سے رینگ نکالتے اسکے مومی جیسے ہاتھ میں پہناتے ہوئے جزبات سے چور لہجے میں بولا۔اور وہ حیرت کا مجسمہ بنی اسے دیکھ رہی تھی محبت تو وہ بھی کرنے لگی تھی لیکن اظہار سے ڈرتی تھی لیکن آج۔
حیدر میں بھی تم سے بہت محبت کرنے لگی ہوں بہت زیادہ جتنی میں نے کسی سے نہیں کی اتنی بہت لو یو حیدر کو یو سو مچ"انابیہ بھی روتے ہوئے اظہار کرتے بولی۔اور حیدر اسپر جھکنے لگا یہاں تک کہ انکے بیچ کا فاصلہ بھی ختم ہوگیا اور انابیہ بھی محبت کے بہکاوے میں آتی اسکا پورا پورا ساتھ دینے لگی اور جب پانچ منٹ بعد وہ الگ ہوے تو انابیہ کے چہرے پر شرم وہ حیا کی لالی تھی اور دوسری طرف وہ اپنی جیت پر خوش ہو رہا تھا۔
انابیہ میں جلد ہی مما پاپا کو بھیجونگا تمہاری طرف تم بس میری ہو صرف میری"حیدر اسے واپس چلے لگاتے ہوئے بولا۔تو وہ اس میں اور چھپ گئی ۔
اب چلے میڈم یہ پھر تھوڑا اور رومینس"حیدر شرارت سے بولتا بات ادھوری چھوڑ گیا اور انابیہ لدی سے اس سے دور ہوںٔی تو حیدر نے ہنستے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
اسلام وعلیکم مما"انابیہ چہکتے ہوئے مسسز حامر کو گلے لگایا۔
واعلیکم اسلام بڑی خوش لگ رہی ہیں آپ"مسسز حامر اسکی نظر اتارتے ہوئے بولی۔
ہاں نہ مما آج میں بہتتتت خوش اتنی خوش کی بتا نہیں سکتی"انابیہ بازوں پھیلا کر گھومتے ہوئے بولی۔
ارے سنبھل کر چکر آ جائیں گے"مسسز حامر فکر مندی سے بولی۔
نہیں آتے مما چکر اچھا آج اپنے کیا بنایا ہے"انابیہ ہنستے ہوئے بولیاور اپنی مما کے پیشانی کا بوسہ لے لیا۔
تمہاری فیوریٹ بریانی جاؤ جلدی سے فریش ہو کر آؤ"مسسز حامر اسے خود سے الگ کرتے ہوئے محبت سے بولی۔
یاہووو مما یو آر دی بیسٹ"وہ چہکتے ہوئے بولی اپنے روم کی طرف بڑھ گئی پیچھے مسسز حامر نے اسکی ہمیشہ ایسے ہی جانتے رہنے اور کسی کی نظر نہ لگ جانے کی دعا کی تھی لیکن انہیں پتا نہیں تھی کہ انابیہ کو نظر لگ گئی تھی وہ بھی محبت کی۔
یحیدر ابھی اپنے گھر پہنچا ہی تھا کہ اسکا فون بجا جسے وہ اوکے کرتا کان سے لگا گیا۔
ہیلو حیدر کہاں ہو"دوسری طرف سے ہانیہ بولی۔
گھر پر ہوں کیوں کوی کام"وہ سیڑھی چڑھتے ہوئے بولا۔
نہیں بس تمہاری یاد آ رہی تھی"وہ تھنڈی سانس لیتے ہوئے بولی۔
اچھا جی آپکا ہماری یاد آ رہی تھی آج خیر تو ہے"حیدر شرارت سے بولا۔
کیا مطلب میں تمہیں یاد نہیں کر سکتی کیا صرف وہ چڑیل ہی کر سکتی ہے"ہانیہ منھ بنا کر بولی آخر میں اسکا کہنا کاٹدار ہو گیا تھا۔
نہیں یار میں تو بس مزاق کر رہا تھا میں ابھی آرام کرنے جا رہا شام میں کلب میں ملتا ہوں"وہ اپنی جیکٹ اتار کر صوفے پر رکھتے ہوئے بولے۔
اوکے جان لو یو"ہانیہ محبت سے بولی۔
لو یو ٹو ڈارلنگ 💋"۔۔۔وہ محبت پاش لہجے میں بولتا کال کاٹ گیا۔
بس کچھ دن اور مس انابیہ پھر تم رو گی تڑپوگی"وہ انابیہ کو سوچتا حقارت سے بولا اور واشروم میں بند ہو گیا۔
مما میں اپنی فرینڈ کی طرف جا رہی ہوں آنے میں لیٹ ہو جائے گا"دانیہ کچن میں آتے ہوئے بولی۔
اچھا دھیان سے جانا"وہ مصروف سا بولی۔تو انابیہ باہر کی طرف بڑھ گئی۔
ہیلو حیدر میں پہنچ رہی ہوں تم کہاں ہو"انابیہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولی اور اسکے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
میں بھی بس رستے میں ہوں تم بتاؤ کہاں ہو میں پک کر لیتا ہوں"وہ ڈرائیو کرتے ہوئے بولا۔
میں برگر کنگ کے پاس ہوں"انابیہ باہر دیکھتے بولی۔
تم وہی پر رکو میں بھی وہی آس پاس ہوں آتا ہوں"وہ بولا۔
اوکے۔۔۔انکل آپ یہی پر چھوڑ دے میری فرینڈ مجھے پک کر لیگی یہاں سے"انابیہ اس سے کہتی ڈرائیور سے مخاطب ہوںٔی۔
تھیک ہے بیٹا "ڈرائیور نے ایک طرف گاڑی روک دی تو وہ اتر گئی۔
اگر مما پوچھے تو آپ کہنا کہ آپنے مجھے میری منزل پر ہی اتارا ہے"انابیہ یاد آنے پر بولی۔
جی بیٹا"ڈرائیور نے تعبداری سے کہا۔اور گاڑی آگے بڑھا لی۔
پانچ ہی منٹ ہوا تھا کہ ایک بلیک کلر کی گاڑی اسکے سامنے رکی۔تو وہ فرنٹ ڈور کھولتی بیٹھ گئی۔
میں نے پورے پانچ منٹ ویٹ کیا ہے"وہ سامنے والے سے منہ بنا کر بولی۔جس پر وہ ہنس دیا۔
یار راستے میں تھا نا اچھا اب موڈ سہی کرو"وہ ہنستے ہوئے بولا تو وہ بھی ہنس دی۔
یار یہ ساڑی کتنی اچھی لگ رہی ہے کل میری برتھڈے پر تم یہی پہننا"حیدر ایک بلیک کلر کی ساڑی اسے دیکھاتے ہوئے بولا جسکے بازو سلیولیس تھی اور اس سے پیٹ صاف جھلکتا تھا۔
یار اسکے بازو دیکھو اور بلاؤز کتنا چھوٹا ہے"انابیہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔
یار کم آون اتنا چلتا ہے"وہ برا مانتے ہوئے بولا۔
لیکن یار۔۔۔تم میرے لیے بھی نہیں پہن سکتی"ابھی وہ کچھ بولتی کہ وہ اس کی طرف جھکتا محبت سے بولا۔
حیدر یہ اوپن پلیس ہے اینڈ اوکے "انابیہ جلدی سے اسے خود سے دور کرتے ہوئے بولی۔
تھینک یو جاننا"حیدر مسکراتے ہوئے بولا اور اس ڈریس کو لیے کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا اسکے پیچھے وہ بھی بڑھ گئی۔پھر حیدر نے اسے ساڑی کی میچنگ جیولری اور سینڈلز دیلای۔اور اب وہ لوگ ایک فوڈکور میں بیٹھے لنچ کر رہے تھے۔
انابیہ میری برتھڈے پارٹی فارم ہاؤس پر ہے تو تم کل کی شام میرے ساتھ ہی رک جانا"حیدر اسے محبت سے دیکھتے ہوئے بولا۔
یار کیسے مطلب مما نہیں مانیں گی اور پھر مما اکیلی بھی پو جائیں گی نہ"انابیہ پریشانی سے بولی۔
یار بول دینا نہ کی سب فرینڈز روکیں گی تو وہ مان جائیں گی"وہ اسے قاںٔل کرتے ہوئے بولا۔
اچھا اور یہ ساڑی تمہیں تو پتا ہے نہ میں ایسے ڈریس نہیں پہنتی نہ ہی مما پہننے دیتی ہیں"اس نے دوسری پریشانی بتای۔
گھر سے تم نارمل تیار ہع کر نکلنا میرے میرے فارم ہاؤس میں باقی کی تیاری کر لینا"حیدر نے دوسرا حل پیش کیا۔تو وہ چپ کر گئی۔
میں تمہارا ویٹ کرونگا کل جلدی آنا "وہ اسے گھر ڈروپ کرتے ہوئے بولا۔
اوکے حیدر اب میں چلتی ہوں"وہ بولتی گاڑی کا لوک کھولنے لگی کہ ہو بول اٹھا۔ایک منٹ"جس پر اسنے اسے آبرو آچکا کر دیکھا۔تو وہ اسکی طرف جھکنے لگا۔
حیدر یہ کیا کر رہے ہو ہم گاڑی میں ہیں"انابیہ جلدی سے اسے روکتے ہوئے گھبرا کر بولی۔
یار کس تو کرنے دو اونلی ون"وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔
لیکن حیدر میں تو تمہارج ہی ہوں نہ بس تم جلدی سے رمشتہ بھیج دو"وہ کنفیوز ہوتے بولی۔
اوکے فاین جاؤ "وہ ناراضگی سے بولا اور منھ دوسری طرف جر گیا۔تو انابیہ پہلے کچھ دیر سوچتی رہی پھر خود ہی اسے کولر سے پکڑتی اپنی طرف گھوما کر اس پر جھک گئی یہ اتنا اچانک ہوا کہ حیدر سمجھ نہیں سکا اور جب سمجھ آی تو وہ بھی شدت سے اس پر جھک گیا اور جب دس منٹ بعد انابیہ کی سانس پھولنے لگی تو حیدر اس سے دور ہوا۔
یو اوکے جان"حیدر اس کی پیٹ سہلاتے ہوئے بولا۔
ہاں۔ہاں ایم اوکے اچھا اللہ حافظ "انابیہ کہتی گاڑی سے اتر گئی اور وہ بھی گاڑی کو منزل کی طرف موڑ گیا۔
آج حیدر کا برتھڈے تھا اور وہ بلیک ویسکوٹ میں بہت ہینڈسم گ رہا تھا۔اور وہ اس وقت اپنے دوستوں کے ساتھ محو گفتگو تھا۔
یار تو اس کے ساتھ غلط کر رہا ہے وہ بہت اچھی ہے"سوفی اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
تو جب سے اسکا ہمدرد بن گیا ہے چپ کر اور میں جو کر رہا مجھے کرنے دے"وہ بگڑتے ہوئے بولا ۔
یار میں اس کا ہمدرد نہیں بن رہا بس تو سہی نہیں کر رہا"سوفی دوبارا بولا۔
ایان دیکھ اسے چپ کرا دے ورنہ یہ مجھ سے پٹ جائے گا"حیدر غصے سے ایان سے بولا۔
ارے یار سوفی تو چل کر وہ جو کر رہا کرنے دے"ایان سوفی کو چپ کراتے ہوئے بولا۔
حیدر وہ دیکھو آ گئی وہ"ہانی نے اسکا دھیان سامنے کرایا جہاں سے وہ آ رہی تھی بلیک ساڑی میں سلیولیس بلاؤز جو صرف کمر سے اپر تک آتا تھا اس سے اسکی دودھیا کمر خوب نمایہ ہو رہی تھی جسے وہ ساڑی کے پکو سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی اور ہلکے میک اپ میں وہ قیامت ہی تو لگ رہی تھی۔
یار کیا قیامت لگ رہی ہے یہ تو"ایان منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
چپ کر"حیدر اسے گھورتے ہوئے بولا۔تو وہ نظریں نیچے کر گیا۔اور حیدر جلدی سے اسکی طرف بڑھا جو انکمفرٹیبل محسوس کر رہی تھی
واؤ انابیہ لوکینگ بیوٹیفل"حیدر اسے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
شکریہ حیدر مجھے عجیب گیل ہو رہا ہے"وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
کیوں جان آؤ اندر چلتے ہیں "حیدر اسی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے خود سے قریب کرتے ہوئے بولا اور اسے لیے اندر بڑھ گیا۔
حیدر کیا کر رہے سب دیکھ رہے"انابیہ اسکا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
یار کچھ نہیں ہوتا بی ریلیکس"وہ اسے ریلیکس کرتے ہوئے بولا تو وہ چپ ہوتی اسکے ساتھ آگے بڑھ گئی۔
ہیلو ڈںٔیر کیسی ہو"حیدر اسے لیے ہانی لوگ کے پاس آیا تو ہانی اسکی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
جی الحمدللہ آپ بتاؤ"وہ بھی جواباً مسکراتے ہوئے بولی۔
میں بھی بلکل فٹ"وہ مسکرا کر بولی۔
اچھا اب چلو کیک کاٹتے ہیں ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے"حیدر اسے لیے کیک کاٹنے کی جگہ پر لے آیا جہاں پر کیک رکھا ہوا تھا۔
ہیلو جینٹل مین یہ ہے میری جی ایف اینڈ مای لائف پارٹنر "حیدر اسکا وہاں پر موجود سبھی سے اسکا تعارف کروانے لگا اور اسکے تعارف کروانے پر انابیہ ارشاد سی ہو گئی اور انکے سامنے کھڑی ہانی نے پہلو بدلا۔
چلو جان کیک کاٹتے ہیں"حیدر اسے ہاتھ میں بھری دیتا اسکے ساتھ کیک کاٹا اور پہلا پیس اسے کھلایا پھر اپنے دوستوں کو اور ایسے ہی ان کی پارٹی اختتام کو پہنچی۔
حیدر میں تھک گئی ہوں اب مجھے آرام کرنا ہے"مہمان اور ان کے دوستوں کے جانے کے بعد انابیہ حیدر سے بولی ھو موبائل میں لگا ہوا تھا۔
ہاں تو چلو روم میں میں بھی آرام ہی کرنے جا رہا تھا"حیدر اٹھتے ہوئے بولا
کیا مطلب۔۔میرا مطلب کی تمہارے ساتھ کیسے"وہ حیرت سے بولی ۔
یار جانوں ہم تو ویسے بھی شادی کرنے والے ہیں نہ اور دوسرے رومز بند ہیں ورنہ میں تمہیں کوئی بھی روم دے دیتا"وہ معصومیت سے بولا
لیکن حیدر تمہارے ساتھ کیسے"وہ ہونز پریشانی سے بولی۔۔
یار کچھ نہیں ہوتا سچی اور ویسے بھی ایک ہی رات کی تو بات ہے اور جانو میں تم سے دور نہیں رہے سکتا اب زیادہ نہ" وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔
لیکن میں"وہ ہونز شش و پنج میں تھی۔
ششش ریلیکس جان کچھ نہیں ہوتا تم بھی اچھا فیل کروگی "حیدر اسے چپ کراتے بولا اور اسے گود میں اٹھا لیا نرمی سے۔اور لیے روم کی طرف بڑھ گیا روم میں آتے اسنے اسے نرمی سے بیڈ پر لٹایا اور جاکر دروازے کو لاک لگاتے پھر سے اسکے پاس آ گیا ۔اور انابیہ لیٹے ہوئے ہی اسے دیکھ رہی تھی جو اب اپنی شڑٹ اتار رہا تھا۔
حیدر یہ سہی نہیں ہے"وہ واپس اٹھتے ہوئے بولی ۔
یارررر کچھ نہیں ہوتا میری فیلینگز بھی سمجھو نہ اب تم سے دوری جان لیوا ہو رہی ہے"وہ بے بسی سے بال میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
تو حیدر تم جلدی سے اپنے پیرینٹس کو بھیج دو پھر سہی ہو جائے گا نہ"انابیہ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی ۔
میرے پیرینٹس ابھی آؤٹ اوف کنٹری ہیں اور کب آیںگے پتہ نہیں"وہ اسکے ہاتھوں کو لبو سے چھوتے ہوئے بولا۔
تو تھوڑا انتظار کر لیتے ہیں نہ"وہ اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بےبسی سے بولی۔
جان انتظار کرتے کرتے میں مر...ابھی وہ لفظ پورا کرتا کہ انابیہ نے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر روک دیا۔
مرنے کی بات نہ کرو حیدر ورنہ میں مر جاؤں گی میں اب تمہارے بنا ایک پل بھی نہیں رہے سکتی"انابیہ اسکے سینے سے لگتی روتے ہوئے بولی۔توحیدر نے اسے خود میں بھینچ لیا اور اسے لیے لیے ہی بیڈ پر لیٹ گیا اب انابیہ اسکے اپر اور وہ اسکے نیچے تھی۔حیدر انچا ہوتا اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کر گیا اور ایسے ہی اسنے کروٹ بدل دی اب انابیہ بیڈ پر تھی اور وہ اس پر جھکا ہوا تھا اس نے ویسے ہی اس پر جھکے جھکے اپنا ہاتھ اسکی بیک پر ڈالا تو وہ اسکی۔ اور سمٹ گئی۔
حیدر۔۔۔وہ لمبا لمبا سانس لیتے ہوئے بولی۔
ششش ریلیکس"وہ اسے ریلیکس کرتا اسکی ساڑی اسکے بازوں سے ہٹاتا وہاں جھک گیا اور اسپر نشان چھوڑنے لگا پھر دوبارا وہ اسکے ہونٹوں کو قید کرتا اسکے بلاؤز کی زپ کے نیچے کھسکا دیا اور اب وہ اسکی بیوٹی بون پر آتا وہاں اپنے ہونٹ رکھ گیا وہاں اسکے پورے وجود کو اپنے ہونٹوں سے چھو رہا تھا اور وہ بے چین اسے روکنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی لیکن لگتا تھا کہ آج وہ جیسے نشہ کرکے آیا تھا کچھ سن ہی نہیں رہا تھا اس کے وجود پر جگہ جگہ اپنے نام کی مہر لگا رہا تھا بغیر کسی حق کے اسے خود میں بھینچے اسکے وجود کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتار رہا تھا۔ساری رات وہ اسپر سوار رہا آخر میں تھک کر انابیہ نے بھی خود کو اسکے حوالے کر دیا۔
صبح جب اسکی آنکھ جھولی اسنے خود کو اسکی پناہ اسکی باہوں میں پایا اور رات کا سار منظر اسکی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا اور وہ گھبرا کر اٹھنے لگی کہ حیدر نے دوبارا اسے اپنے حصار میں لے لیا۔
ڈارلنگ کہاں جا رہی"وہ نیند میں بولا۔
حیدر مجھے اب گھر جانا چاہیے مما پریشان ہو رہی ہونگی"وہ ااسکا حصار توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
ٹھوری دیر اور سو جاؤ نہ یار اپنی خوشبو مجھے سانسوں میں اتارنے دو"وہ خماری سے بولا۔
پلیز حیدر"اب کی بار وہ روتے ہوئے بولی تو حیدر اٹھ بیٹھا اور اسے دیکھنے لگا۔
کیا ہوا بےبی کیوں رو رہی"وہ فکرمندی سے اسے چپ کراتے ہوئے بولا۔
حیدر یہ رات میں کیا ہو گیا میں مما کو کیا جواب دونگی حیدر پلیز کچھ کرو میں "وہ روتے ہوئے بولتی اسکے سینے سے لگ گئی۔
کچھ دن بس پھر تم میری بس مما پاپا کو آ لینے دو تم رونا بند کرو شاباش"وہ اسے پچکارتے ہوئے بولا۔
پکا نہ حیدر تم اپنے پیرینٹس کو بھیجو گے"وہ اسکے سینے سے چہرا اٹھاتے ہوئے بولی۔
یس بےبی آی ایم بس چپ"وہ اسکا چہرا ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا محبت سے بولا اور ایک آخرجمی دفعہ اسکے چہرے پر جھک گیا اور اپنا شدت بھرا لمس چھوڑنے لگا۔اور وہ کچھ نہ کر سکی۔
اب جاؤ تم فریش ہو جاؤ پھر ہم ناشتہ کرتے ہیں "وہ اس سے الگ ہوتا ہوا بولا اور اسے اٹھا کر واشروم تک لے آیا اور اسے اندر کرتا باہر سے دروازہ بند کر دیا پانچ منٹ بعد وہ فریش پو کر نکلی تو وہ بھی فریش ہونے چلا گیا۔اور دونوں نے ساتھ میں ناشتہ کیا پھر حیدر نے اسے اسکے گھر چھوڑ دیا۔اور انابیہ گھر آتی اپنے روم میں بند ہو گئی۔پھر اسنے دن بھر کچھ نہیں کھایا اور نہ ہی دروازہ کھولا اور باہر مسسز حامر پریشان ہوتی رہی کہ اچانک کیا ہو گیا اسے۔
~~~~~~~~~~~~~~
آج وہ روم سے نکلی تھی اور یونی جانے کے لیے تیار تھی۔
بیٹا آپ تھیک ہو نا کیا ہوا تھا کل آپ کو"مسسز حامر اسے روم سے نکلتے دیکھ اسکی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔
کچھ نہیں مما بس سر درد کر رہا تھا تو اس لیے "وہ ان سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔
پکا نہ یہی بات تھی"وہ اس کے چھرے پر کچھ کھوجتے ہوئے بولی۔
ہاں نہ مما میں یونی جا رہی اور وہی کچھ کھا لوںگی"وہ ان کے سوالوں سے بچتی جلدی سے بولی اور باہر کی طرف بڑھ گئی۔پیچجے وہ اسے اللہ کی امان میں بھیجتی اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
وہ پوری یونی میں اسے ڈھونڈ چکی تھی لیکن اسے وہ کہی نہیں ملا تھا ابھی وہ کینٹین جا رہی تھی کہ اسے اسکے دوست دیکھ گئے تو وہ ان کی طرف ہی بڑھ گئی۔
ہانی کیا آپ کو پتا ہے حیدر کہاں ہے میرا فون بھی نہیں آتا رہا"انابیہ ان کے پاس آتے ہوئے بولی۔
مجھے کیا پتا تن تو اس کی گرلفرینڈ ہو نہ تمہیں پتا ہونا چاہیے"وہ غصے سے بولتی وہاں سے چلی گئی۔اور ایان بھی اسکے پیچھے ہی ہو لیا۔
سوفی بھائی آپ ہی بتا دیں حیدر کہاں ہے میری کال بھی نہیں اٹھا رہا"وہ پریشانی سے سوفی سے بولی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
وہ تو لندن چلا گیا اپنے پیرینٹس کے پاس"وہ سنبھلتے ہوئے بولا۔
اچھا اپنے پیرینٹس کو لینے گیا ہے کیا"وہ ناسمجھی سے بولی۔
نہیں وہ ہمیشہ کے لیے گیا ہے کبھی نہ واپس آنے کے لیے"وہ اسکی بے چینی کو دیکھتا ٹھر ٹھر کر بولا۔
آپ مزاق نہ کر رہیں پلیز سچ بتائیں کہاں ہے وہ"وہ ہنستے ہو بےجینی سے بولی۔
میں سچ کہہ رہا مس انابیہ وہ چلا گیا ہے اور اس نے جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کیا ہے وہ صرف بدلہ تھا س تھپڑ کا جو تم نے اسے مارا تھا"اب کی بار وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولا۔
نہیں ۔۔۔وہ ۔۔وہ تو مجھ سے محبت کرتا تھا اور وہ مجھ سے شادی بھی کرنے والا تھا اس نے مجھے وعدہ کیا تھا نہیں سب جھوٹ ہے"وہ روتے ہوئے اسکی بات کی نفی کرتے بولی۔
وہ کوئی محبت نہیں کرتا تھا صرف بدلے کے لیے اس نے یہ سب کچھ کیا تھا مس انابیہ"وہاسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا
نہیں میں نہیں مانتی سنا تم نے میں نہیں مانتی"وہ اسکا ہاتھ جھٹکتی غصے سے بولی اور باہر کی طرف بھاگی پیچھے وہ تاصف سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔
وہ سارا راستہ روتے ہوئے گھر پہنچی اور سیدھے جا کر اپنے روم میں بند ہو گئی پھر سارا دن سارہ رات روتی رہی۔
انابیہ کیا ہوا ہے دروازہ کھولو بیٹا"مسسز حامر دروازک بجاتے ہوئے بولی۔لیکن وہ کچھ نہ بولی
انابیہ میرا دل بیٹھ جائے گا بیٹا کیا ہوا ہے آپ کو کیوں رو رہی"وہ پریشانی سے بولی۔
کچھ نہیں ہوا مما میں تھیک ہوں"وہ روتے ہوئے بولی۔
انابیہ دروازک کھولو بیٹا میں ایک دفعہ آپ کو دیکھ لوں تاکہ میرے دل کو قرار آ جائے "وہ ہونز بےچینی سے بولی۔
تو انابیہ نے ناچار دروازہ کھولا دیا اور ایک طرف ہو گئئ۔
بیٹا آپ دو کیوں رہی میرا بچا کیا ہوا ہے آپ کو"وہ اسکا چہرا ہاتھوں کے پیالے میں لیتی ہوئی بولی۔
مما سر بہت درد کر رہا کم ہی نہیں ہو رہا درد"وہ روتے ہوئے بولی اور ان سے لپٹ گئی۔
روتے نہیں میرا بچا آؤ میں تمہارا سر دبا دیتی ہوں وہ اسے لیے بیڈ پر آی تو وہ ان کی گود میں لیٹ گئی اور وہ اس کا سر دبانے لگی اور کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند میں چلی گئی تو مسسز حامر اسکے پیشانی چمتی باہر کی طرف بڑھ گئی۔
انابیہ نے یونی جانا بلکل ہی بند کر دیا تھا بس اپنے روم کی ہو کر رہے گںٔی مسسز حامر نے اس سے اتنا پوچھا کی کیا ہوا ہے یونی کیوں نہیں جا رہی لیکن وہ کچھ نہ بولی بس طبیعیت کا بول کر ٹال دیتی۔
انابیہ بیٹا آپ یونی کیوں نہیں جا رہی"مسسز حامر اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی۔
بس مما اب من نہیں کرتا یونی جانے کا"وہ سامنے دیکھتے ہوئے اداسی سے بولی۔اور ان کی گود میں سر رکھ گیا۔
بیٹا آپ ایسی تو نہیں تھی نہ پھر کیا ہو گیا ہے آپکا "وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔
پتہ نہیں مما"وہ اداسی سے بولی۔ابھی مسسز حامر کچھ بولتی کہ وہ منھ پر ہاتھ رکھ کے اٹھ بیٹھی اور جلدی سے واشروم کی طرف بھاگی۔اور جب پانچ منٹ بعد وہ نکلی تو ندھال سی بیڈ پر ڈھے گئی۔
انابیہ۔۔۔یہ تمہیں قے کب سے آ رہی ہے"انہوں نے کسی خدشات کے تہت پوچھا۔
کچھ دنوں سے مما"وہ نڈھال سی بولی۔
تم آرام کرو میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں"وہ اسے آرام کی تلقین کرتی باہر بڑھ گئی ۔
کچھ دیر بعد ہی مسسز حامر ایک لیڈی ڈاکٹر لے آی۔جنہوں نے اس کا چیک اپ کیا اور پھر باہر نکل گئی۔
کیا ہوا ڈاکٹر کیا بات ہے"ڈاکٹر کے ہی پیچھے وہ بھی نکلتی ہوئی پریشانی سے بولی ۔
شی از پریگنینٹ"ڈاکٹر تشویش سے بولی۔
آپ شیور ہیں ڈاکٹر"وہ پریشانی سے بولی ۔
جی مسسز حامر آپ ایک دفعہ ان سے بھی پوچھ لیں تو آپ کو کلیر ہو جائے گا اور یہ کچھ میڈیسن کے نام ہے منگوا لینا"وہ اس کی طرف ایک چٹ بڑھاتے ہوئے بولی۔
جی ڈاکٹر"وہ بولی اور انہیں گیٹ تک چھوڑا۔
انابیہ بیٹا میں آپ سے جو بھی پوچھوں گی آپ سچ بتائیں گی"مسسز حامر اسکے ساتھ بیڈ ہدف بیٹھتے ہوئے بولی ۔
جی مما"وہ ان سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔
آپکا کس کے ساتھ میرا مطلب"انہیں سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہے۔
مما حیدر وہ۔۔۔اس نے مجھے چیٹ کیا وہ مجھ سے محبت کرتا تھا۔۔۔اس نے کہا کہ وہ والدین بھیجے گا لیکن نہیں بھیجا اور پھر"وہ اتنا کہتی زوروقتار رونے لگی۔
انابیہ آپ نے میرا بھی نہیں سوچا "مسسز حامر روتے ہوئے بولی ۔
مما سوری"وہ روتے ہوئے ان سے لپٹ کر بولی۔
بیٹا اب کیا فاںٔدہ"وہ اسے ساتھ لگاتے ہوئے بولی ۔
مما۔۔۔مما میں اس سے بات کرونگی وہ اپنے بچے کا سن کر ضرور مان جائے گا"وہ ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے روتے ہوئے بولی۔
بیٹا نہیں اب نہیں اب آپ گھر سے باہر بھی نہیں جائیں گی"اس دفعہ وہ تھوڑا سکتی سے بولی۔
لیکن مما۔۔یہ بچہ"وہ روتے ہوئے بولی۔
بس میں نے بول دیا نہ انابیہ"وہ اس سے سکتی سے بولی اور وہاں سے چلی گئی۔
یا اللّٰہ یہ۔۔۔یہ کیا ہو گیا۔۔۔ آپ ۔۔تو میری ساری بات مانتے۔۔۔ہیں نہ۔۔ہھر اب۔۔کیوں نہیں ۔۔تو تو ۔۔ہمیشہ میرے ساتھ رہتا تھا نہ۔۔مجھے مصیبت سے بچاتا تھا۔۔تو پھر آج کیوں نہیں اللّٰہ۔۔۔اللہ سارے وعدے۔۔۔ہاں وعدے۔۔یا اللّٰہ یہ میں نے کیا کر دیا۔۔۔وک جلدی سے کچھ یاد آنے پر اٹھی اور واشروم میں بند ہو گئی اور جب نکلی تو ڈوپٹہ کو نماز کے اسٹائل میں باندھا ہوا تھا پھر اس نے جلدی سے نفل کی نعیت باندھی اور دو رکعت نماز ادا کی اور ساری نماز کی وہ روتی رہی آخر میں اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔
اللّٰہ۔۔ اللّٰہ جی ایم سوری میں نے۔۔میں نے سارے وعدے توڑ دیے۔۔میں نے وعدہ خلافی کی۔۔یا اللّٰہ کیا ہو گیا مجھ سے مجھے معاف کر دے یا اللہ بس ایک دفعہ میں معاف کر دے میں پکا والا پرومس کرتی اب کبھی شریک نہیں کرونگی کسی کو سچی والا اللہ میں کیسے بھول گئی تھی آپ کو اس لیے شاید آپ بھی۔۔۔اللہ آخری دفعہ معاف کر دیں اب کبھی حیدر کا زکر بھی نہیں کرونگی کبھی بھی نہیں اور میں اس بچے کو بھی جنم دونگی اور اسے کبھی باہ کی کمی بھی محسوس ہونے نہیں دونگی جیسے مما نے میرا خیال رکھا تھا ویسے ہی میں بھی رکھونگی۔پکا والا پرومس اللہ مجھے معاف کردے اب کبھی وعدہ خلافی نہیں کرونگی۔۔وہ روتے ہوئے گڑگڑاتے ہوئے اللہ سے فریاد کرتی رہی اپنے ہر گناہ کی معافی مانگتی رہی وعدہ خلافی پر توبہ کرتی رہی اور وہی اس سکون مل گیا اور وہ گہری نیند سو گئی کبھی نہ اٹھنے کے لیے آبدی نیند۔ اللّٰہ نے اسے معاف بھی کر دیا اور ایک گہری پرسکون نیند بھی عطا کر دی۔۔
Seyad faizul murad
22-Sep-2022 02:13 PM
قابل تعریف ۔ بہت ہی اچھا لکھا ہے
Reply
Reena yadav
22-Sep-2022 01:32 PM
واقعی آپ نے بہت خوبصورت لکھا ہے، آپ کے قلم کا کوئی جواب نہیں۔ 👏👏
Reply
Qasim mehmood
22-Sep-2022 12:59 AM
کہانی میں ایک دلکش حسن نظر آیا جو آپکے قلم کی خصوصیات میں شاملِ قلم ہو گا اور مزید کامیابی کا ضامن بنے گا انشاءاللہ
Reply